Friday 17 January 2014

ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا

ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا 
ورنہ یہ خوابِ سفر آنکھ کو چھالے دے گا
کون راتوں کو جلائے گا تِری یادوں کو
کون یوں بعد مِرے تجھ کو اُجالے دے گا
دیس سے دُور رہو ورنہ یہ آزاد وطن
بیڑیاں پاؤں کو اور ہونٹ کو تالے دے گا
پہلے معیار بنا لے گا چمکتے ملبُوس
پھر وہ فہرست سے کچھ نام نکالے دے گا
اِک ذرا پاؤں میں جھنکار بجے سکُوں کی
پھر مِرے نام کے ہر شخص حوالے دے گا
اب تو آ جا کہ تھکا ہارا مسافر آخر
کب تلک ڈُوبتی سانسوں کو سنبھالے دے گا

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment