ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا
ورنہ یہ خوابِ سفر آنکھ کو چھالے دے گا
کون راتوں کو جلائے گا تِری یادوں کو
کون یوں بعد مِرے تجھ کو اُجالے دے گا
دیس سے دُور رہو ورنہ یہ آزاد وطن
پہلے معیار بنا لے گا چمکتے ملبُوس
پھر وہ فہرست سے کچھ نام نکالے دے گا
اِک ذرا پاؤں میں جھنکار بجے سکُوں کی
پھر مِرے نام کے ہر شخص حوالے دے گا
اب تو آ جا کہ تھکا ہارا مسافر آخر
کب تلک ڈُوبتی سانسوں کو سنبھالے دے گا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment