Friday 17 January 2014

روح پہ اب افتاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے

رُوح پہ اب اُفتاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
رہ رہ کر جب یاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
آنکھ نے اتنے شہر اُجڑتے دیکھے ہیں کہ رَستے میں
اب بستی آباد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
وہ لڑکی جو دُشمن کا ہر حملہ ہنس کے سہتی ہے 
اپنوں کی امداد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
اس کو ویرانوں سےگھوراندھیروں سے کچھ خوف نہیں
لیکن آدم زاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
دل میں اتنی گہری چُپ ہے، اتنا گُم سناٹا ہے
بُھولی بھٹکی یاد کوئی آ جائے تو گھبرا جاتی ہے
دل اس شہر میں جیسے اِک پَر ٹُوٹی تن تنہا چڑیا
جنگل میں صیاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment