کفن باندھے ہوئے یہ سارا شہر جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رَستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مسلسل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضروری ہے
سرِ مقتل، ہمِیں کو پھر پکارا جا رہا ہے کیوں
ہمیں آسودہ غم دیکھنا بھی شاک ہے اس پر
تہِ گردابِ غم سے پھر ابھارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشورِ سِتم، لیکن اسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اتارا جا رہا ہے کیوں
یہاں تو شہرِ دل میں ہر طرف لاشے ہی لاشے ہیں
اب ایسے میں یہاں شب خون مارا جا رہا ہے کیوں
سرِ گرداب رہ کر ڈُوب جانا ہی مناسب تھا
کہ اب ساحل پہ ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے کیوں
میرے قاتل خبر لے اپنے لشکر کی کہ اس رَن میں
یہ استبداد کا لشکر بھی ہارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رَستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مسلسل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضروری ہے
سرِ مقتل، ہمِیں کو پھر پکارا جا رہا ہے کیوں
ہمیں آسودہ غم دیکھنا بھی شاک ہے اس پر
تہِ گردابِ غم سے پھر ابھارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشورِ سِتم، لیکن اسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اتارا جا رہا ہے کیوں
یہاں تو شہرِ دل میں ہر طرف لاشے ہی لاشے ہیں
اب ایسے میں یہاں شب خون مارا جا رہا ہے کیوں
سرِ گرداب رہ کر ڈُوب جانا ہی مناسب تھا
کہ اب ساحل پہ ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے کیوں
میرے قاتل خبر لے اپنے لشکر کی کہ اس رَن میں
یہ استبداد کا لشکر بھی ہارا جا رہا ہے کیوں
پیرزادہ قاسم صدیقی
No comments:
Post a Comment