Friday, 17 January 2014

میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے

میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
یہ دل مِرا ہے، مگر اختیار کس کا ہے
یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحتؔ جی
یہ مدتوں سے تمہیں انتظار کس کا ہے
تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد ہونے لگتا ہے
تو پوچھتے ہیں دلِ بے قرار کس کا ہے
یہ بات طے ہی نہیں ہو سکی ہے آج تلک
ہمارے دونوں میں آخر فرار کس کا ہے
نہ جانے کس نے میرے منظروں کو دُھندلایا
نہ جانے شہر پہ چھایا غُبار کس کا ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment