Saturday 18 January 2014

ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے

ہِجر کی پہلی شام کے سائے دُور اُفق تک چھائے تھے
ہم جب اُس کے سحر سے نکلے سب رستے ساتھ لائے تھے
جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات
پیار کی باتیں کرتے کرتے اُس کے نین بھر آئے تھے
میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جُوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے
اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں
ہم اپنے ایمان کا سودا جس سے کرنے آئے تھے
کیسے جاتی میرے بدن سے بِیتے لمحوں کی خوشبو
خوابوں کی اس بستی میں کچھ پُھول میرے ہمسائے تھے
کیسا پیارا منظر تھا جب دیکھ کے اپنے ساتھی کو
پیڑ پہ بیٹھی اِک چِڑیا نے اپنے پر پھیلائے تھے
رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیلؔ
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment