Saturday, 18 January 2014

جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھلا کرتا ہے

جو بھی غُنچہ تیرے ہونٹوں پر کھِلا کرتا ہے
وہ میری تنگئ داماں کا گِلہ کرتا ہے
دیر سے آج میرا سر ہے تیرے زانوں پر
یہ وہ رُتبہ ہے جو شاہوں کو مِلا کرتا ہے
میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفاں کو
تو میرے دل کے دھڑکنے کا گِلہ کرتا ہے
رات یوں چاند کو دیکھا ہے ندی میں رقصاں
جیسے جھُومر تیرے ماتھے پہ ہِلا کرتا ہے
کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا
جو بھی کرتا ہے محبت کا گِلہ کرتا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment