جب درمیاں ہمارے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چُن رہا تھا
میں ضبط کی حدوں میں، تیری خموشیوں کی گُفتار سُن رہا تھا
عرض و طلب کا نغمہ، کل رات جب چھیڑا تھا اِک سازِ بے صدا پر
تھا محو میں بھی لیکن، سر بیخودی میں تو بھی، ہر بار دُھن رہا تھا
روزِ ازل سے مجھ کو، بت خانۂ وفا سے، تھی اِس لئے عقیدت
معلوم تھا یہ کس کو، غم کی سیاہ راتیں، کاٹے نہ کٹ سکیں گی
میں آس پاس اپنے، ہالا تسلیوں کا بے کار بُن رہا تھا
جب پَو پَھٹی تو بڑھ کر، کچھ نااُمیدیوں نے مجھ سے قتیلؔ پُوچھا
کیا تُو ہی ہے جو اب تک، موہوم آہٹوں کی جھنکار سُن رہا تھا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment