شہرِ دہلی
دیارِ داغ و بیخود شہرِ دہلی چھوڑ کر تجھ کو
نہ تھا معلوم یوں روئے گا دل شام و سحر تجھ کو
کہاں مِلتے ہیں دنیا کو، کہاں مِلتے ہیں دنیا میں
ہوئے تھے جو عطا اہلِ سخن اہلِ نظر تجھ کو
تُجھے مرکز کہا جاتا تھا دنیا کی نگاہوں کا
محبت کی نظر سے دیکھتے تھے سب نگر تجھ کو
بقولِ میرؔ! اوراقِ مصوّر تھے تِرے کُوچے
مگر ہائے زمانے کی لگی کیسی نظر تجھ کو
نہ بُھولے گا ہماری داستاں تُو بھی قیامت تک
دلائیں گے ہماری یاد تیرے رہگزر تجھ کو
جو تیرے غم میں بہتا ہے وہ آنسو رشکِ گوہر ہے
سمجھتے ہیں متاع دیدہ و دل دیدہ ور تجھ کو
میں جالبؔ دہلوی کہلا نہیں سکتا زمانے میں
مگر سمجھا ہے میں نے آج تک اپنا ہی گھر تجھ کو
حبیب جالب
دیارِ داغ و بیخود شہرِ دہلی چھوڑ کر تجھ کو
نہ تھا معلوم یوں روئے گا دل شام و سحر تجھ کو
کہاں مِلتے ہیں دنیا کو، کہاں مِلتے ہیں دنیا میں
ہوئے تھے جو عطا اہلِ سخن اہلِ نظر تجھ کو
تُجھے مرکز کہا جاتا تھا دنیا کی نگاہوں کا
محبت کی نظر سے دیکھتے تھے سب نگر تجھ کو
بقولِ میرؔ! اوراقِ مصوّر تھے تِرے کُوچے
مگر ہائے زمانے کی لگی کیسی نظر تجھ کو
نہ بُھولے گا ہماری داستاں تُو بھی قیامت تک
دلائیں گے ہماری یاد تیرے رہگزر تجھ کو
جو تیرے غم میں بہتا ہے وہ آنسو رشکِ گوہر ہے
سمجھتے ہیں متاع دیدہ و دل دیدہ ور تجھ کو
میں جالبؔ دہلوی کہلا نہیں سکتا زمانے میں
مگر سمجھا ہے میں نے آج تک اپنا ہی گھر تجھ کو
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment