Saturday 18 January 2014

میں کل تنہا تھا، خلقت سو رہی تھی

میں کل تنہا تھا، خلقت سو رہی تھی
 مجھے خُود سے بھی وحشت ہو رہی تھی
 اُسے جکڑا ہُوا تھا زندگی نے
 سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی
کُھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی
 میرے رَستے میں کانٹے بَو رہی تھی
 مجھے بھی نارسائی کا ثمر دے
 مجھے تیری تمنا جو رہی تھی
 میرا قاتِل میرے اندر چُھپا تھا
 مگر بدنام خلقت ہو رہی تھی
 بغاوت کر کے خُود اپنے لہُو سے
 غلامی داغ اپنے دھو رہی تھی
 لبوں پر تھا سکوتِ مرگ لیکن
 میرے دِل میں قیامت سو رہی تھی
 بجُز موجِ فنا دنیا میں محسنؔ
 ہماری جسُتجو کِس کو رہی تھی

 محسن نقوی

No comments:

Post a Comment