Sunday 19 January 2014

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا
 لگتی جو تُجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
 کرنا تھا تُجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
 بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
 دیتا نہ کبھی ٹُوٹنے پندارِ محبت
 اے کاش تُو خُود میری کہانی کو سمجھتا
ہِجرت کا سبق مُجھ کو وہی دینے لگا ہے
 جو شخص نہیں نقل مکانی کو سمجھتا
 رہتا نہ کبھی بھی وہ مِرے خواب سے باہر
 اِک بار جو جذباتِ جوانی کو سمجھتا
 آتا جو ہُنر مُجھ کو خریداری کا، میں بھی
 بازارِ زمانہ کی گِرانی کو سمجھتا
 گمبِھیر مسائل میں شب و روز کے اشرفؔ
 فُرصت تھی کسے، رات کی رانی کو سمجھتا

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment