Sunday 19 January 2014

اس سے بڑھ کر کہوں میں کیا مرشد

اِس سے بڑھ کر کہوں میں کیا مُرشد
 میرے حق میں بھی کر دُعا مُرشد
 مجھ سے مِٹتے ہوئے نظارے کو
 کچھ نہ کچھ تو مِلے بقا مُرشد
 میں نے جو عشق کر کے چھوڑا تھا
 دے رہا ہے مجھے سزا مُرشد
مجھ کو دل میں ہی رکھ محبت سے
 اپنی نظروں سے مت گِرا مُرشد
 میں کہ افلاک کا ستارہ تھا
 آج مٹی میں مِل گیا مُرشد
 دُھوپ میں رکھ کے یوں جلایا گیا
 بن گیا دن کا میں دِیا مُرشد
 تُو ہی بتلا کہ اِس زمانے میں
 کوئی ہم سا ہے بے نوا مُرشد
 تجھ کو مانا ہے جانِ جاں لیکن
 ہم نے مانا نہیں خدا مُرشد
 جب سے اشرفؔ کو رہنما مانا
 تب سے رہنے لگا خفا مُرشد

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment