Sunday, 19 January 2014

فلک سے دور نیا آسماں بناتے ہوئے

فلک سے دُور نیا آسماں بناتے ہوئے
 ستارہ راکھ ہوا کہکشاں بناتے ہوئے
 مِلی نہیں مجھے یونہی مُراد کی منزل
 غُبار ہونا پڑا، کارواں بناتے ہوئے
 میں خود ہی جلنے لگا سُرخ آگ میں اپنی
 دُھویں کے ساتھ دِیئے کا نشاں بناتے ہوئے
کبھی تو عشق مِرا مجھ کو لازوال کرے
 کہ مِٹ رہا ہوں تجھے جاوداں بناتے ہوئے
 وہ شخص ہی مجھے برباد کرنے والا ہے
 میں مطمئن ہوں جسے رازداں بناتے ہوئے
 تمام عمر میں اِک گھر نہ بن سکا مجھ سے
 میں خرچ ہوتا رہا بس مکاں بناتے ہوئے
 جُدا کیا گیا خوابوں کو آنکھ سے میری
 ہر ایک شب کو شبِ امتحاں بناتے ہوئے
 مجھے یوں آیا فسانہ گری کا فن اشرفؔ
 میں خود فسانہ ہوا، داستاں بناتے ہوئے

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment