کچھ ایسے بے بسی نے ہے رکھا بھرم مِرا
مجھ پر نہ آشکار ہوا کوئی غم مِرا
پھر یوں ہوا کہ میری بھی مٹی اُکھڑ گئی
گوشہ ہوا تھا آنکھ کا، تھوڑا سا نَم مِرا
اِک آہُوئے خیال ہوں، اور دشتِ بے مُراد
جاری ہے ایک عرصہ ہوا مجھ میں رَم مِرا
میں بھی چراغ لایا ہوں سُورج کے سامنے
رہ جائے کچھ اُجالوں میں شاید بھرم مِرا
اِک پَل بھی مجھ کو دیتا نہیں دید کی خوشی
لیکن وہ شخص کہتا ہے خود کو صنم مِرا
گو کہ کسی زمیں پہ حکومت نہیں مِری
لہرا رہا ہے یاروں کے دل پر عَلَم مِرا
میری خودی کو اور فزوں تر بنا گیا
مولا یہ تیرے سامنے ہو جانا خَم مِرا
لغزش سی آ گئی مِرے پائے ثبات میں
روکا ہے کس زلیخا نے اشرفؔ قدم مِرا
مجھ پر نہ آشکار ہوا کوئی غم مِرا
پھر یوں ہوا کہ میری بھی مٹی اُکھڑ گئی
گوشہ ہوا تھا آنکھ کا، تھوڑا سا نَم مِرا
اِک آہُوئے خیال ہوں، اور دشتِ بے مُراد
جاری ہے ایک عرصہ ہوا مجھ میں رَم مِرا
میں بھی چراغ لایا ہوں سُورج کے سامنے
رہ جائے کچھ اُجالوں میں شاید بھرم مِرا
اِک پَل بھی مجھ کو دیتا نہیں دید کی خوشی
لیکن وہ شخص کہتا ہے خود کو صنم مِرا
گو کہ کسی زمیں پہ حکومت نہیں مِری
لہرا رہا ہے یاروں کے دل پر عَلَم مِرا
میری خودی کو اور فزوں تر بنا گیا
مولا یہ تیرے سامنے ہو جانا خَم مِرا
لغزش سی آ گئی مِرے پائے ثبات میں
روکا ہے کس زلیخا نے اشرفؔ قدم مِرا
اشرف نقوی
No comments:
Post a Comment