Sunday 19 January 2014

اک عمر کا ملال مرے ساتھ ساتھ ہے

اِک عمر کا ملال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 یعنی کوئی خیال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 وہ پیڑ ہوں کہ جس سے پرندے بھی اُڑ گئے
 کیوں کر اُڑے، سوال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 اُڑنے لگا ہوں جب سے میں ٹُوٹے پروں کے ساتھ
 سوچوں کا ایک جال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 جب سے مُجھے جلایا گیا ہے ہواؤں میں
بُجھنے کا احتمال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 ایسا نہ ہو کہ آج میں خُود سے اُلجھ پڑوں
 تا زیست اِک وبال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 کرنا ہے پار ہَجر کا بحرِ عمیق بھی
 پر خواہشِ وصال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 غم میرے واسطے کبھی غم ہی نہیں رہے
 جب سے وہ خُوش جمال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 اشرفؔ ہُوا ہوں جب سے میں عشقِ خدا میں گُم
 اِک حُسنِ لا زوال مِرے ساتھ ساتھ ہے

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment