Sunday 19 January 2014

بات جو کہنے لگا ہوں وہ گوارا کر لے

بات جو کہنے لگا ہوں، وہ گوارا کر لے
 تُو مجھے دل سے نہیں، جان سے پیارا کر لے
 ہنسنے والے تو تُجھے اور بھی مِل جائیں گے
 رونے والوں کو ذرا دیر گوارا کر لے
 دشت کے پہلو سے دریا بھی نِکل سکتا ہے
 تُو اگر چاند ہے تو مُجھ کو ستارہ کر لے
میں تِرے ہِجر کا آزار بھی سِہہ سکتا ہوں
 شرط بس یہ ہے کہ تُو مُجھ سے کنارا کر لے
 کل کو ہو سکتا ہےمیں چاند بھی لا دوں تُجھ کو
 آج کی رات چراغوں پہ گزارا کر لے
 خاک بن کر تُجھے پھر خاک میں مِل جانا ہے
 آخری بار ہی منظر کا نظارا کر لے

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment