Sunday 19 January 2014

خواب ہوتا ہے نہ تعبیر نئی ہوتی ہے

خواب ہوتا ہے، نہ تعبیر نئی ہوتی ہے
 پھر بھی ہر آنکھ میں تصویر نئی ہوتی ہے
 جلد بازی میں پہنچ جاتے ہیں ہم اور کہیں
 اپنی عُجلت میں بھی تاخیر نئی ہوتی ہے
 یہ جو ہم اپنے خیالات میں گُم ہوتے ہیں
 اپنے اندر کوئی تعمیر نئی ہوتی ہے
درد جب آ کے ٹھہرتا ہے نواحِ دل میں
 آیتِ رنج کی تفسیر نئی ہوتی ہے
 روز امید نظر آتی ہے آزادی کی
 روز ہی پاؤں میں زنجیر نئی ہوتی ہے
 یہ عقیدہ ہے مِرا، عشق جو ہو جائے تو
 گوشہٴ روح میں تنویر نئی ہوتی ہے
 جب اُترتی ہیں خیالات کی پریاں اشرف
 میرے الفاظ میں تاثیر نئی ہوتی ہے 

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment