Monday 20 January 2014

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شِدّت نہیں رہی
ضعفِ قویٰ نے آمدِ پِیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی
سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی
کمزورئ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی
ہاتھوں سے انتقام لیا اِرتعاش نے
دامانِ یار سے کوئی نَسبت نہیں رہی
پیہم طوافِ کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پِھرنے کی طاقت نہیں رہی
چہرے کو جھُرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی
اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمارؔ
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment