یہ کِن نشانوں پہ ظالم نے تیر مار دِیئے
کہ آدمی تو نہ مارے، ضمیر مار دیئے
چلا دی چوک میں گولی یہ فن اسی کا تھا
حریف مر نہ سکے، راہگیر مار دیئے
کبھی مرے نہیں زنداں کے جبر سے اتنے
کہ جتنے گھر کے دکھوں نے اسیر مار دیئے
پرندے اپنی اڑانوں سے اب نہ لوٹیں گے
کہ بجلیوں نے ہوا کے سفیر مار دیئے
ہے دکھ تو یہ کہ بہن! جنگ دوسروں کی ہے
پر اس کی زد نے ہمارے بھی ویر مار دیئے
بِلکتے جسم بھی ظالم نے بے ہدف نہ رکھے
اچھال اچھال کے خوں کی لکیر، مار دیئے
کہ آدمی تو نہ مارے، ضمیر مار دیئے
چلا دی چوک میں گولی یہ فن اسی کا تھا
حریف مر نہ سکے، راہگیر مار دیئے
کبھی مرے نہیں زنداں کے جبر سے اتنے
کہ جتنے گھر کے دکھوں نے اسیر مار دیئے
پرندے اپنی اڑانوں سے اب نہ لوٹیں گے
کہ بجلیوں نے ہوا کے سفیر مار دیئے
ہے دکھ تو یہ کہ بہن! جنگ دوسروں کی ہے
پر اس کی زد نے ہمارے بھی ویر مار دیئے
بِلکتے جسم بھی ظالم نے بے ہدف نہ رکھے
اچھال اچھال کے خوں کی لکیر، مار دیئے
اقبال کوثر
No comments:
Post a Comment