Monday 13 January 2014

سفر اب کے یہ کہتا ہے ہمارا کچھ نہیں ہو گا

سفر اب کے یہ کہتا ہے ہمارا کچھ نہیں ہو گا
بھنور میں ہی رہیں گے ہم کنارا کچھ نہیں ہو گا
ہمیں اندر کی تنہائی بہت مجبور کر دے گی
مگر باہر کی دنیا میں سہارا کچھ نہیں ہو گا
چراغِ دل کو ہاتھوں میں لیے ہم جاں سے جائیں گے
مگر ظلمت کے ماروں کو نظارا کچھ نہیں ہو گا
کئی ہوں گے کرم فرما بھرے جیون کی راہوں میں
ہمیں لیکن تمہارے بن گوارا کچھ نہیں ہو گا
بہت مشکل سفر ہوتا ہے تنہا زندگانی کا
بدل دو فیصلہ اپنا خدارا کچھ نہیں ہو گا
یہ پاکیزہ محبت ہے لٹا کے جان و دل اِس میں
مِرا ایمان پختہ ہے خسارا کچھ نہیں ہو گا
صفیؔ تم بھی اُسی کے ہو یہ غزلیں بھی اُسی کی ہیں
لکھو چاہے بھلے کب تک تمہارا کچھ نہیں ہو گا

 عتیق الرحمٰن صفی

No comments:

Post a Comment