Monday, 13 January 2014

خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چھینا ہے

خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چھینا ہے
مفلسی سے بڑھ کر بھی کیا کوئی کمینا ہے
روشنی کے مدفن میں خوشبوؤں کی میّت ہے
آرزو کے آنگن میں درد کی حسینا ہے
نامُراد راتیں ہیں، بے ہدف اُجالے ہیں
ذِلّتوں کے دوزخ میں اور کتنا جینا ہے
ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیوں کو چُن چُن کر
زہر زندگی کا یہ قطرہ قطرہ پینا ہے
جانے کون ہوتے ہیں جو مُراد پاتے ہیں
اپنے واسطے تو یہ تیرھواں مہینا ہے
جانے کس زمانے میں اُجرتیں بھی ملتی تھیں
اب تو محنتوں کا عِوض خُون اور پسینا ہے
زر پرست بستی کی کیا حسیں ثقافت ہے
ہونٹ مسکراتے ہیں پر دلوں میں کِینا ہے
خوف کے سمندر میں اضطراب کی موجیں
جن پہ بے یقینی کا ڈولتا سفینا ہے
روز اک اذیّت کے دشت سے گزرتا ہوں
نارسی کے تِیروں سے چھلنی میرا سِینا ہے
زندگی تو صدیوں سے  کربلا میں ٹھہری ہے
دمشق اور کُوفہ میں در بدر مدینا ہے
کرب کے الاؤ میں شعلہ شعلہ جلتا ہوں
وحشتوں کی سنگت میں لمحہ لمحہ جینا ہے
شامِ زندگی سر پہ آ کھڑی ہے اور خود کو
ریزہ ریزہ چُننا ہے، لخت لخت سِینا ہے

تبسم نواز

No comments:

Post a Comment