Monday 13 January 2014

درد دل شہر میں کس کس کو سنایا جائے

دردِ دل شہر میں کس کس کو سنایا جائے
محرمِ راز کہاں سب کو بنایا جائے
یاں ترے قُرب کا دعویٰ ہے سبھی کو ساقی
اب تری بزم سے کس کس کو اٹھایا جائے
کیا قیامت ہے کہ اب بادہ کشوں کو تیرے
بادہ نوشی کا سلیقہ بھی سکھایا جائے
روز اِک درد نیا دیتا ہے دل پر دستک
اب تو لازم ہے مسیحا کو بلایا جائے
خود فراموشی کے اس دشت میں ہوں کہ مجھ سے
سانس لینے کا بھی نہ بوجھ اٹھایا جائے
میری فریاد پہ اربابِ جفا کہتے ھیں
کون گستاخ ہے یہ شخص ہٹایا جائے
مسندِ عدل سے اس بار ہے ارشاد ہوا
ہر نئی سوچ کو سولی پہ چڑھایا جائے
تُو نے بھڑکائی ہوئی ہے جو یہ مجھ میں آتش
اب کسی طور اسے یار بُجھایا جائے
میری مٹی میں ہے اک رقصِ جنوں خیز رچا
چاک پہ اس کو زرا تیز گھمایا جائے

تبسم نواز

No comments:

Post a Comment