Saturday 18 January 2014

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
 تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
 یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ
 خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں
 ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام
 شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں
 کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی
اہتمامِ رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں
 ظلم سے ہیں بر سرِ پیکار آزادی پسند
 اُن پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں
 دل بھی انکے ہیں سیاہ خوراکِ زنداں کی طرح
 ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں
 انتہا کر لیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں
 جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں

 حبیب جالب

No comments:

Post a Comment