Thursday 16 January 2014

اے عشق تو گرد سفر بنا تری اور بھلا توقیر ہے کیا

اے عشق! تُو گردِ سفر بنا، تِری اور بھلا توقیر ہے کیا
 تُو خُود ہی حسرت کا مارا، تِرا خواب ہے کیا، تعبیر ہے کیا
اے عشق! تُو بِکتا رہتا ہے، کبھی راہوں میں، کبھی بانہوں میں
 تُو بوجھ ہے دل کی دُنیا کا، مِرے واسطے تُو جاگیر ہے کیا
اے عشق! مزار پہ رقص تِرا، اور کتبوں پر ہے عکس تِرا
 تُو بُجھتے دِیے کا دُھواں ہے بس، تُو کیا جانے، تنویر ہے کیا
تُجھے سُنا تھا میں نے قِصّوں میں، اِس تَن پر تو اب جَھیلا ہے
 مِرا رُوپ رنگ تو زرد ہُوا، مُجھے خبر نہیں، تصویر ہے کیا
تُو مِیم سے عین بنا تھا کیوں، اب چَین سے بِین بنا ہے کیوں
 میں اب تک پُوچھتی پِھرتی ہوں، مِرے پیروں میں زنجیر ہے کیا
ان اشکوں کا تو ذکر ہی کیا، تُجھے عشق! لہو سے بھی لِکھا
 کبھی پڑھ تو سہی ان نوحوں کو، تُجھے عِلم تو ہو، تحریر ہے کیا

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment