Thursday 16 January 2014

رات جو موج ہوا نے گل سے دل کی بات کہی

رات جو موجِ ہوا نے گُل سے دل کی بات کہی
اِک اِک برگِ چمن نے کیسی کیسی بات کہی
آنکھیں رنگ برنگ سجے رَستوں سرشار ہوئیں
دل کی خلِش نے منظر منظر ایک ہی بات کہی
ہر اظہار کی تہ میں ایک ہی معنی پنہاں تھے
اپنی طرف سے سب نے اپنی اپنی بات کہی
آج بھی حرف و بیاں کے سب پیمانے حیراں ہیں
کیسے غزل نے دو سطروں میں پوری بات کہی
سیدھے سادے سے لفظوں میں کہنا مشکل تھا
اس لیے تو ایسی آڑی تِرچھی بات کہی
تم کیوں اپنی مرضی کے مفہوم نکالو ہو
اتنا ہی مطلب ہے ہمارا جتنی بات کہی
تم بھی تو مضمون تراشی میں مصروف رہے
تم نے بھی تو عالیؔ کم کم اصلی بات کہی

جلیل عالی

No comments:

Post a Comment