Thursday 16 January 2014

بستی میں کوئی بھی نہ ترے ساتھ رہا نا

بستی میں کوئی بھی نہ تِرے ساتھ رہا نا
ہم نے جو کہا تھا، وہی آخر کو ہُوا نا
تجھ کو یہ جنوں تھا کہ جہاں جیت لے سارا
جو پاس تھا وہ بھی تِرے ہاتھوں سے گیا نا
تھا زعم کے حاصل ہے ہواؤں پہ حکومت
اب اپنے دِیے کو ذرا بجھنے سے بچا نا
احساس کی دنیا کے اصول اور ہیں پیارے
دل شہر میں دیکھا تِرا سکہ نہ چلا نا
تجھ کو بھی گزرنا تھا مکافاتِ عمل سے
مِلنا تھی تجھے بھی تِرے جُرموں کی سزا نا
خود تیرے گمانوں کی زمیں تنگ ہے تجھ پر
جا ڈھونڈ کسی اور علاقے میں ٹھکانہ
تنگ آ کے کہیں منہ سے کچھ ایسا نہ نکل جائے
مت چھیڑ فقیروں کو، میاں! تجھ سے کہا نا

جلیل عالی

No comments:

Post a Comment