نہ ہو گا کاوشِ بے مدعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھُومی ہے شاخِ آشیاں برسوں
جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں
وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں
نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھا رہا ہے آشیاں برسوں
خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش اُلفت بن
یہ کیا اِک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں
نہ کی کچھ لذّتِ اُفتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں
وہاں کیا ہے، نگاہِ ناز کی ہلکی سی جُنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں
محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں
میں وہ ہرگز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سُوئے آشیاں برسوں
غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغرؔ بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھُومی ہے شاخِ آشیاں برسوں
جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں
وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں
نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھا رہا ہے آشیاں برسوں
خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش اُلفت بن
یہ کیا اِک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں
نہ کی کچھ لذّتِ اُفتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں
وہاں کیا ہے، نگاہِ ناز کی ہلکی سی جُنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں
محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں
میں وہ ہرگز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سُوئے آشیاں برسوں
غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغرؔ بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں
اصغر گونڈوی
No comments:
Post a Comment