رات آ جائے مِری راہ میں، یا شام آئے
میری بے چینی سے کہہ دو مِرے کام آئے
میں ہر اِک رُت کی طرف تکتا ہوں ویرانی سے
شاید اس بار کہیں سے تِرا پیغام آئے
خُوشگمانی بھی عجب ہے کہ ہمیشہ مجھ میں
وحشتیں کتنی ہی تیار پڑی رہتی ہیں
ہجر کے دہشت سے کیسے کوئی ناکام آئے
میں نے اس روز انہیں کھول کے دیکھا ہی نہ تھا
جانے کس درد کے خط تھے جو مِرے نام آئے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment