مجھ سے مِل کر تیرے چہرے پہ اُجالے پڑ جائیں
شہر کے لوگ ہمیں دیکھ کے کالے پڑ جائیں
میں رہوں چُپ تو سبھی چیخ پڑیں وحشت سے
میں سوالات کروں تو ہونٹوں پہ تالے پڑ جائیں
میں نہیں ہوتا ہوں تو فرعون بنے پھرتے ہیں
آگ پر ہاتھ دھریں راکھ اٹھائیں واپس
برف پر پاؤں رکھیں پاؤں پر چھالے پڑ جائیں
درد کی لہر کوئی بھیج میری دنیا میں
اس سے پہلے کہ میری روح پہ جالے پڑ جائیں
ہم جو اُلجھیں تو سدا بچ بچاؤ ہو جائے
درمیان دونوں کے کچھ چاہنے والے پڑ جائیں
گر کبھی ہنس دے تو نُور دہن سے نکلے
ماند پَل بھر میں سبھی چاند کے ہالے پڑ جائیں
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment