Friday 17 January 2014

عشق کی فطرت ازل سے حسن کی منزل میں ہے

عشق کی فطرت ازل سے حُسن کی منزل میں ہے
قیس بھی محمل میں ہے، لیلیٰ اگر محمل میں ہے
جُستجُو ہے زندگی، ذوقِ طلب ہے زندگی
زندگی کا راز لیکن دوریِٔ منزل میں ہے
لالہ و گُل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں
 رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے
اس چمن میں آگ برسے گی کہ آئے گی بہار
اِک لہو کی بُوند کیوں ہنگامہ آرا دل میں ہے
اُٹھ رہی ہے مِٹ رہی ہے، موجِ دریائے وجود
اور کچھ ذوقِ طلب میں ہے نہ کچھ منزل میں ہے
طُور پر لہرا کے جس نے پھونک ڈالا طُور کو
اِک شرارِ برق بن کر میرے آب و گِل میں ہے
اصغرؔ افسردہ ہے محرومِ موجِ زندگی
تو نوائے رُوح پرور بن کے کسی محفل میں ہے

اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment