Friday 17 January 2014

نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
 جانِ مئے خانہ، تِری نرگسِ مستانہ بنے
مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
 ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے
پرتَوِ رُخ کے کرشمے تھے سرِ راہگزار
 ذرّے جو خاک سے اُٹھے، وہ صنم خانہ بنے
موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
 ابر یوں جھُوم کے چھا جائے کہ مئے خانہ بنے
کار فرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال
 چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے

اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment