محبت غیر فانی ہے مرض ہے لا دوا میرا
خدا کی ذات باقی ہے محبت ہے خدا میرا
نہ جیتے جی ہوا ہرگز وفا نا آشنا میرا
پر اس کی داستاں بن کر رہا ذکر وفا میرا
جفا کا تیری طالب ہوں وفا ہے مدعا میرا
یقین نا مرادی پر بھی دیکھو حوصلہ میرا
یہ کیسی چھیڑ ہے کیوں پوچھتے ہو مدعائے دل
ہوئے جب مدعی کے تم سنو کیوں مدعا میرا
پڑے کیوں سوچ میں تم قتل کر کے مہرباں مجھ کو
وفا کی تھی خطا کی تھی نہیں کچھ خوں بہا میرا
نہیں معلوم کس پر آج پھر مشق جفا ہو گی
کہ ہے ان کے لبوں پر آج پھر ذکر وفا میرا
دلآزاری کا باعث ہو نہیں سکتی جفا تیری
وہی ہے نا مرادی پر بھی انداز وفا میرا
خدا جانے حریم ناز ہے کتنی بلندی پر
کہ گزریں مدتیں لیکن ہے نالہ نارسا میرا
مجھے محشر میں بھی امید کم ہے داد پانے کی
خدائی جب بتوں کی ہے تو کیا ہو گا خدا میرا
مسیحائی کا ان کی امتحاں منظور ہے، ورنہ
مجھے معلوم ہے بیخود مرض ہے لا دوا میرا
عباس علی خان بیخود
No comments:
Post a Comment