Tuesday, 14 January 2014

محبت غیر فانی ہے مرض ہے لا دوا میرا

 محبت غیر فانی ہے مرض ہے لا دوا میرا

خدا کی ذات باقی ہے محبت ہے خدا میرا

نہ جیتے جی ہوا ہرگز وفا نا آشنا میرا

پر اس کی داستاں بن کر رہا ذکر وفا میرا

جفا کا تیری طالب ہوں وفا ہے مدعا میرا

یقین نا مرادی پر بھی دیکھو حوصلہ میرا

یہ کیسی چھیڑ ہے کیوں پوچھتے ہو مدعائے دل

ہوئے جب مدعی کے تم سنو کیوں مدعا میرا

پڑے کیوں سوچ میں تم قتل کر کے مہرباں مجھ کو

وفا کی تھی خطا کی تھی نہیں کچھ خوں بہا میرا

نہیں معلوم کس پر آج پھر مشق جفا ہو گی

کہ ہے ان کے لبوں پر آج پھر ذکر وفا میرا

دلآزاری کا باعث ہو نہیں سکتی جفا تیری

وہی ہے نا مرادی پر بھی انداز وفا میرا

خدا جانے حریم ناز ہے کتنی بلندی پر

کہ گزریں مدتیں لیکن ہے نالہ نارسا میرا

مجھے محشر میں بھی امید کم ہے داد پانے کی

خدائی جب بتوں کی ہے تو کیا ہو گا خدا میرا

مسیحائی کا ان کی امتحاں منظور ہے، ورنہ

مجھے معلوم ہے بیخود مرض ہے لا دوا میرا


عباس علی خان بیخود

No comments:

Post a Comment