Tuesday 14 January 2014

پس ہر رنج گماں زخم یقیں دیکھا ہے

پس ہر رنجِ گماں، زخمِ یقیں دیکھا ہے
رائیگاں ہم نے کسی غم کو نہیں دیکھا ہے
کیا تمہیں خوابِ تمنّا کی حقیقت معلوم
تم نے کب اشکِ طلب، داغِ جبیں دیکھا ہے
گھیر لیتا ہے کہیں اک شبِ رفتہ کا ملال
ورنہ کیا تم نے کبھی ہم کو غمِیں دیکھا ہے
کیا سے کیا ہو گئے ہم، بدلی نہیں یہ دنیا
پھر وہی عکسِ فلک، رنگِ زمیں دیکھا ہے
ساتھ رہتے ہوئے پردہ ہی رہا ہے ایسا
ہم کو لگتا ہی نہیں اس کو کہیں دیکھا ہے
ہم جو کہتے ہیں بھلا تم کو سمجھ کیوں آئے
تم نے ایسے کبھی دنیا کو نہیں دیکھا ہے
کیا کبھی ترکِ مسافت کا خیال آیا تمہیں
تم نے دیکھا وہ مکاں، اس کا مکیں دیکھا ہے
پھر اسی غم اسی مٹی کی طرف لوٹ چلوں
میں نے یہ خواب ستاروں کے قرِیں دیکھا ہے
ایک سایہ ہی رہا ہے کہیں بِینائی پر
دیکھنے کو تو بہت اپنے تئِیں دیکھا ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے اب خاک ہوئے جاتے ہیں
کوئی بتلاؤ اگر اس کو کہیں دیکھا ہے

ابرار احمد

No comments:

Post a Comment