Monday 13 January 2014

راہ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے

راہِ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اترنے والے
منصبِ عشق سے معزول نہیں ہو سکتے
اتنا خوں ہے مِرا گلشن میں، کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہو جائیں، مگر پھول نہیں ہو سکتے
حاکمِ شہر کے اطراف وہ پہرہ ہے کہ اب
شہر کے دکھ اسے موصول نہیں ہو سکتے
فیصلے جن سے ہو وابستہ وطن کی قسمت
صرف اندازوں پہ معمول نہیں ہو سکتے
خون پینے کو یہاں کوئی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں ہو سکتے
جنبشِ ابروئے شاہاں نہ سمجھنے والے
کسی دربار میں مقبول نہیں ہو سکتے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment