عبث ہم خاک کے پُتلے، نِگوں تقدیر کیا کرتے
مقدر میں نہیں تھا جو اُسے تسخیر کیا کرتے
نہیں تھا ہاتھ میں جس کے ہمارے درد کا درماں
دِکھا کر زخم ہم اپنا اُسے دل گیر کیا کرتے
ہمارے درمیاں تھا فاصلہ اِک ہاتھ کا، لیکن
وہ جو سورج کے ہوتے بھی ترستے تھے اُجالے کو
مری تاریک راتوں کو عطا تنویر کیا کرتے
مقابل گر عدُو ہوتے تو ہم ان سے نمٹ لیتے
مگر ہم دوستوں پر برہنہ شمشیر کیا کرتے
صفیؔ مِدحت سرا ہم اُس کے سب اپنی جگہ لیکن
وہ خوشبو کا بدن تھا ہم اُسے تصویر کیا کرتے
صغیر صفی
No comments:
Post a Comment