میر کو بدنام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ایک شاعر کام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
خود کو جو خلوت نشینِ ذات کہتا تھا، وہی
نامہ و پیغام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
بیچنے کو کچھ نہیں اس یوسفِؑ ثانی کے پاس
بھائی کو نِیلام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
سارقِ گنجینۂ غالبؔ بہت مجبور ہے
حیلۂ الہام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
جائے حیرت ہے کہ جو مسجودِ آئینہ تھا، وہ
پتھروں کو رام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
رازِ مہر و ماہ تو کیا جانتا وہ بد نصیب
بے ستارہ شام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ہو چکی سیّاحئِ دشتِ سخن، اب کیا کرے
در بدر آرام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ہم سے ناکامِ محبت کو بھلا کیا اس سے کام
کون کیا کیا کام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ایک شاعر کام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
خود کو جو خلوت نشینِ ذات کہتا تھا، وہی
نامہ و پیغام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
بیچنے کو کچھ نہیں اس یوسفِؑ ثانی کے پاس
بھائی کو نِیلام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
سارقِ گنجینۂ غالبؔ بہت مجبور ہے
حیلۂ الہام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
جائے حیرت ہے کہ جو مسجودِ آئینہ تھا، وہ
پتھروں کو رام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
رازِ مہر و ماہ تو کیا جانتا وہ بد نصیب
بے ستارہ شام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ہو چکی سیّاحئِ دشتِ سخن، اب کیا کرے
در بدر آرام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ہم سے ناکامِ محبت کو بھلا کیا اس سے کام
کون کیا کیا کام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment