سچ کہا اے صبا! صحنِ گلزار میں، دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں صحبتِ یار میں، دل نہیں لگ رہا
روپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اور چھاؤں کی
ایک تکرار ہے اور تکرار میں، دل نہیں لگ رہا
وہ بدن اب کہاں، پیرہن اب کہاں، بانکپن اب کہاں
سب بیاباں ہوا، تیرے بازار میں، دل نہیں لگ رہا
میرے تو رنگ ہی اڑ گئے، جب کہا ایک تصویر نے
اب مجھے پھینک دو، میرا دیوار میں، دل نہیں لگ رہا
صر صرِ وقت آئے بکھیرے مجھے، چار اطراف میں
اب عناصر کے اس ٹھوس انبار میں، دل نہیں لگ رہا
اے پرندو! چلو، اے درختو چلو، اے ہواؤ چلو
گرد ہی گرد ہے، کوچۂ یار میں، دل نہیں لگ رہا
کیا کتابیں مِری، کیا مِری شاعری، رائیگاں رائیگاں
میرؔ و سوداؔ و غالبؔ کے اشعار میں دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں صحبتِ یار میں، دل نہیں لگ رہا
روپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اور چھاؤں کی
ایک تکرار ہے اور تکرار میں، دل نہیں لگ رہا
وہ بدن اب کہاں، پیرہن اب کہاں، بانکپن اب کہاں
سب بیاباں ہوا، تیرے بازار میں، دل نہیں لگ رہا
میرے تو رنگ ہی اڑ گئے، جب کہا ایک تصویر نے
اب مجھے پھینک دو، میرا دیوار میں، دل نہیں لگ رہا
صر صرِ وقت آئے بکھیرے مجھے، چار اطراف میں
اب عناصر کے اس ٹھوس انبار میں، دل نہیں لگ رہا
اے پرندو! چلو، اے درختو چلو، اے ہواؤ چلو
گرد ہی گرد ہے، کوچۂ یار میں، دل نہیں لگ رہا
کیا کتابیں مِری، کیا مِری شاعری، رائیگاں رائیگاں
میرؔ و سوداؔ و غالبؔ کے اشعار میں دل نہیں لگ رہا
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment