غیروں کے ساتھ بیٹھے ہیں اس انجمن میں ہم
کانٹوں سے واسطہ ہے مگر ہیں چمن میں ہم
سمجھو نہ داغ دامن دل میں یہ پھول ہیں
اب ہیں قفس نصیب کبھی تھے چمن میں ہم
رسوا نہ زخم تیر نظر ہو یہ خوف ہے
ہاتھوں سے دل چھپائے ہوئے ہیں کفن میں ہم
وہ حسن تھا کہ حسن نظر تھا خبر نہیں
کچھ دیکھتے رہے ہیں تِری انجمن میں ہم
جاگے ہیں خواب سے بھی تو عالم ہے خواب کا
خوشبو سی پا رہے ہیں تِرے پیرہن میں ہم
تھی آرزو چمن کی اور اب دل قفس میں ہے
اک اجنبی سے آئے ہوئے ہیں وطن میں ہم
چاہا درست چاہ جتانا غلط ہوا
سیدھی تھی راہ کھوئے گئے بانکپن میں ہم
دیکھیں گے جلوۂ چمن آرا چمن میں ہم
ذوق نظر سے چاک کریں گے حجاب گل
بیخود! خدا کا شکر، بتوں کی نظر پڑی
ورنہ گئے تھے گردش چرخ کہن میں ہم
عباس علی خان بیخود
No comments:
Post a Comment