Monday 13 January 2014

خمیر خاک سے تھا خاک میں ملا دیا ہے

خمیر، خاک سے تھا خاک میں ملا دیا ہے
 کہ کوزہ گر نے دِگر چاک میں بٹھا دیا ہے
 غرورِ جاہ و حشم اے زمانے! کیا کم تھا
نسب کا تمغا بھی پوشاک میں لگا دیا ہے
 ہوائے نفس کے گرد و غبار نے، کتنے
 چمکتے تاروں کو افلاک میں چھپا دیا ہے
 عجیب خطۂ بے فیض و بے مروت ہے
 ہوس نے موم کو ہر ناک میں لگا دیا ہے
 کمالِ خوبئ فن ہے، مِرے مصوّر نے
 اَلَم کو دیدۂ نمناک میں سجا دیا ہے
 گواہ، تازہ سیاہی ہے تیرے غم کی ابھی
 چراغِ ہجراں کو کب 'طاق' میں بُجھا دیا ہے
سوالِ عشق پہ گویا ہوئے کہ ہم نے تجھے
 بنامِ غم، خس و خاشاک میں ملا دیا ہے
 نکال کر دلِ ناداں، فگار سینہ سے
 جنوں کو سینۂ صد چاک میں چھپا دیا ہے

عارف خواجہ

No comments:

Post a Comment