Monday, 13 January 2014

ذرا سا ہجر ہے بس

ذرا سا ہِجر ہے بس 

 نجانے تم کہاں ہو
 تمہاری آہٹیں اب بھی دھڑکتی ہیں فضا میں
 ہواؤں کے پیالے میں تمہاری سانس کی تَلچھٹ ہے باقی
 تمہارے جسم کی خوشبو مِرے ماتھے کا بوسہ لے رہی ہے
 میں اس کا ہاتھ پکڑے، ہر تعفّن پار کرتی جا رہی ہوں

 بصارت میں ابھی تک ہے تمہاری دِید زندہ
 اسی سے ہے مِری آنکھوں میں اب تک نُور باقی
 تمہاری چشم ہائے دلکُشا کی روشنی میرے چراغوں میں ہے اب تک
 سماعت کے شجر میں ہیں تمہارے خوب صورت چہچہوں کے آشیانے
 تمہاری دلرُبا سرگوشیوں کی گنگناہٹ کو فنا نے کب چُھوا ہے
 مساموں میں تمہارا لمس اب تک جاگتا ہے
 زمانہ رفتگاں میں نام لیتا ہے تمہارا
 مگر تم وہ شجر ہو جو زمیں سے کٹ کے بھی کٹتا نہیں ہے
 تمہارا مہرباں سایہ مِرے سر سے کبھی ہٹتا نہیں ہے
 یہیں ان کائناتی دائروں میں ہو کہیں تم
 میں سانسوں کی اندھیری کوٹھڑی میں ہوں مقیّد
 تمہیں اس سے رہائی مل چکی ہے
 تمہیں جلدی تھی، تم نے
 بدن کا بوجھ مٹّی کے حوالے کر دیا ہے
 ذرا سا ہِجر ہے بس 

حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment