Monday, 13 January 2014

محمدﷺ کا آخری خطبہ

عارفانہ کلام

محمدﷺ کا آخری خطبہ 
(سرورِ کائناتﷺ کے آخری خطبہ سے اخذ کردہ چند نکات)

مِرے عزیزو
زمانِ حاضر کے منتخب، بے مثال لوگو
مجھے پیمبر سمجھنے والو
مِری طریقت پہ چلنے والو
میں جانتا ہوں
مِری معیّت میں جس گزرگاہ پر چلے ہو
بہت کٹِھن تھی

قدم قدم پر نئے حوادث
تمہارے سچ کا خراج لینے
تمہاری رہ میں کھڑے ہوئے تھے
زوال آمادہ لوگ
تم سے عروج کی اس گھڑی میں
آ آ کے پوچھتے تھے
کہ جلتے سورج تلے
عقیدے کی چھاؤں کب تک جواں رہے گی
یہ جاں کنی کا عذاب کتنے برس سہو گے
وہ بے خبر تھے
کہ جو بھی اس راہ پر چلا ہے
وہ جبر کی آہنی فصیلوں کو
سنگِ منزل سمجھ کے بڑھتا چلا گیا ہے
مِرے عزیزو
اب اس گھڑی
جب تمہارا ایمان اپنی تکمیل پا چکا ہے
تمہارے اندر کے بتکدوں کے تمام اصنام
ڈھ چکے ہیں
سفر کی ساری صعوبتوں سے گزر چکے ہو
گواہ رہنا
صداقتوں کے امین لوگو
گواہ رہنا
کہ میں نے ساری امانتیں تم کو سونپ دی ہیں
سنو
کہ اب جو میں کہہ رہا ہوں
یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے
جو ذات کے بندھنوں سے
تم کو رہائی دے گا
تمہارے اندر کی سب خلیجوں کو پاٹ دے گا
میں زندگی کی فصاحتوں اور بلاغتوں کو
سمجھ کے تم سے یہ کہہ رہا ہوں
سماعتیں اور بصارتیں قبلہ رُو کرو گے
تو دیکھ لینا
بصیرتوں کے چراغ
خود ہی تمہارے اندر کے سارے طاقوں میں جل اٹھیں گے
تمہیں خبر ہے؟
کہ زندگی اپنے ظاہری خدّوخال سے کتنی مختلف ہے
تمہیں خبر ہے؟
کہ روح کے پُل تَلے تمہارے وجود کا عارضی بہاؤ
بڑی ہی سُرعت سے بہہ رہا ہے
مِرے عزیزو
حیات سُکھ ہے
کہ موت کچھ فاصلے پہ
رَستے کو کاٹنے کے لیے کھڑی ہے
یہ موت سُکھ ہے
کہ اختصارِ حیات ہی وجہِ دلکشی ہے
جہانِ زیر و زبر کے جھگڑوں سے
ماوراء ہو کے دیکھ لینا
تمام سُکھ ہے
یہ خواہشوں کا حصیر کچھ دیر کو لپیٹو
فریبِ سُود و زیاں سے کچھ دیر
خود کو تفریق کر کے سوچو
جہاں کی ساری اکائیوں کو شمار کر لو
تمام سُکھ ہے
یقین رکھو
تمام سُکھ ہے

سلمان باسط

یہ نظم محترم اسلم انصاری صاحب کی شہرۂ آفاق نظم " تمام دُکھ ہے" سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment