Monday 13 January 2014

مجھے تم سے محبت تھی

مجھے تم سے محبت تھی
اگرچہ پیار لفظوں کے ترازو میں نہیں تولا
کبھی یہ سچ نہیں بولا
مگر تم سے محبت تھی
اسی دن سے
کہ جب سے زندگی درّانہ آئی تھی
مگر یہ پیار کا جذبہ
بھلا اظہار کا دست نگر کب تھا
تمہارے پیار کی موجیں
مِرے دل کے سمندر پر ہمیشہ سے ہی رقصاں تھیں
ہر اک شے میں تمہارے حُسن کا چہرہ مزیّن تھا
تمہی کو گیت کے قالب میں اب تک ڈھالتا آیا
تمہارا پیار دل میں اب تلک میں پالتا آیا
مجھے جب بھی تمنّاؤں کے صحرا میں
بھٹکتے، کھوجتے اِک آشنا چہرہ نظر آیا
تمہارا تھا
اسے میں نے محبت کے نہاں خانوں میں رکھ چھوڑا
اسے میں نے تمہارے اَن سُنے سے نام سے منسُوب کر ڈالا
کبھی جو زندگی کی بِھیڑ میں
انجان رَستوں میں
کسی چہرے کی نرمی نے
کسی آواز کی لَے نے
مجھے اپنی طرف کِھینچا
تمہارا عکس تھا شاید
تمہاری ذات کا پَرتَو
مِری اطراف میں یوں ضوفشاں تھا
جس طرح مہتاب کی کرنیں
کسی فُرقت زدہ دل میں
شہابی رنگ کے کتنے اُجالے گھول دیتی ہیں
اب ان رنگوں کو بہنے دو
مجھے اب تو یہ کہنے دو
مجھے تم سے محبت ہے

سلمان باسط

No comments:

Post a Comment