Friday 24 January 2014

ہم کو نسبت نہ دو سمندر سے

ہم کو نِسبت نہ دو سمندر سے
 بھائی! ہم ٹوٹتے ہیں اندر سے
 کسی مسجد سے اور نہ مندر سے
 اس سے رشتے ہیں دل کے اندر سے
 جن کے دم سے ہے نامِ عشق بلند
 وہ تو کچھ لوگ تھے قلندر سے
 سارے ہنگامے اہلِ دل سے ہیں
 کچھ ہُوا بھی کسی مچھندر سے
 کیا قلاباز ہیں سیاست کے
 دیکھے کرتب بھی ان کے بندر سے
 حجلۂ شیخ میں سجی تھی جو
 مُورتی گم تھی میرے مندر سے
 زندہ باہر سے دیکھتے ہو تم
 لوگ تو مر رہے ہیں اندر سے

اقبال کوثر

No comments:

Post a Comment