Friday 24 January 2014

دیا سا دل ہوں محبت کدوں میں جلتا ہوں

دِیا سا دل ہوں محبت کدوں میں جلتا ہوں
 لہو جلاتا ہوا، دل جلوں میں جلتا ہوں
 میں بار بار بُجھا ہوں جہاں ہواؤں سے
 میں بار بار انہی راستوں میں جلتا ہوں
 مجھے تو گھر کے اندھیروں نے بانٹ رکھا ہے
 میں اِک چراغ کئی طاقچوں میں جلتا ہوں
 رکھا ہوں گھر میں فقط قسط وار جلنے کو
 گزرتی شب کے کئی مرحلوں میں جلتا ہوں
 مصاحبت ہو تو اک بوسۂ ہوا سے بُجھوں
 مبارزت ہو تو میں آندھیوں میں جلتا ہوں
 کوئی ہوا میں تو لعلِ یمن نہیں بنتا
 کسے خبر کہ میں کن آتشوں میں جلتا ہوں
 نہیں کہ میرا سفر ایک ہی مدار میں ہے
 میں آفتاب کئی گردشوں میں جلتا ہوں
 میں شہرِ درد میں ہوں جیسے گورکن کا چراغ
 میں محفلوں میں نہیں، مقبروں میں جلتا ہوں

اقبال کوثر

No comments:

Post a Comment