Tuesday, 14 January 2014

روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے

روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے
اس نے مجھ کو لاکھوں انسانوں سے اچھا رکھا ہے
تم روشن کر رکھو جتنے ہجر الاؤ ممکن ہوں
میں نے بھی اپنی آنکھوں کے پیچھے دریا رکھا ہے
آنکھ کہاں ہے، ایک آفت گویا رکھی ہے چہرے پر
دِل کب ہے میرے پہلو میں، ایک تماشا رکھا ہے
جو مجھ میں کھل کر ہنستا اور ساون بھادوں روتا تھا
اس بچے کو میں نے اب تک خود میں زندہ رکھا ہے
جس دن میری دھرتی اپنی چادر مجھ پر ڈالے گی
بس اس دِن کی خاطر میں نے خود کو زندہ رکھا ہے
خاک بسر پھرتی ہیں جس میں لیلائیں دن رات، منیر
میں نے اپنی ذات میں ایک ایسا بھی صحرا رکھا ہے

منیر سیفی

No comments:

Post a Comment