Tuesday 14 January 2014

دیارِ دل میں ترے غم کی آبرو کیا ہے

دیارِ دل میں تِرے غم کی آبرو کیا ہے
کبھی تو دیکھ مِری آنکھ سے کہ تُو کیا ہے
میں کیا کروں گا یہ دنیائے رنگ و بو لے کر
تِرے بغیر یہ دنیائے رنگ و بو کیا ہے
جگر کے داغ سے فارغ ہوئے نہ ہاتھ مِرے
وگرنہ ایک گریبان کا رفُو کیا ہے
کبھی تو آخرِ شب کی خموشیوں میں سنو
گل و ستارہ و شبنم کی گفتگو کیا ہے
جسے بھی آئیں میسّر وہ چشم و عارض و لب
اسے یہ بادہ و پیمانہ و سبُو کیا ہے
اڑی ہے پھر کہیں کیا میکدوں کے کھلنے کی
ہجومِ تشنہ لباں میں یہ ہاؤ ہو کیا ہے
ادائے حُسن کا مارا ہوا ہماری طرح
قتیلِ غمزۂ معشوق ہے،عدو کیا ہے
اسی لیے تِرے درباں سے دور بیٹھے ہیں
کہ پوچھ لے، تو کہیں کیا کہ جستجو کیا ہے
حدیثِ یار کو خاورؔ لہو سے لکھتے ہیں
یہاں بھی کام نہ آیا تو پھر لہو کیا ہے

خاور احمد

No comments:

Post a Comment