Monday, 20 January 2014

غم نہاں کو بھلایا مگر بھلا نہ سکے

غمِ نِہاں کو بُھلایا، مگر بھلا نہ سکے
لبوں کو چھیڑ لیا، دل سے مُسکرا نہ سکے
کچھ ایسی نیند تِرے غم کی چھاؤں میں آئی
کہ حادثاتِ زمانہ ہمیں جگا نہ سکے
مجھے تو اُن کی عبادت پہ رحم آتا ہے
جبِیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے
گزر گیا کبھی ایسا بھی وقتِ مجبُوری
کہ ہم بھی رو نہ سکے وہ بھی مُسکرا نہ سکے
ہزار بار ہُوئے خُوش بھلا کے ہم اُن کو
مزا تو یہ ہے کہ اِک بار بھی بھلا نہ سکے
اگر ہزار نشیمن جلیں تو فکر نہ کر
یہ فکر کر کہ گُلستاں پہ آنچ آ نہ سکے
خمارؔ اجل بھی نہ راس آئی ان غریبوں کو
جو زندگی کو حریفِ اجل بنا نہ سکے

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment