Friday 17 January 2014

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روحِ قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہو گیا
یہ تصّور تو ہرگز ہمارا نہیں
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
اُن کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں
کچھ اسیرانِ گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی محاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کہ پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارضِ بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہیں تھا میں ذہنِ اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالے دشمن کی تلوار نے
دھڑ بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں

مشیر کاظمی

2 comments:

  1. یہ نظم شاید مشیر کاظمی کی ہے۔ براہ کرم آپ چیک کر لیجیے۔

    ReplyDelete
  2. جی عمران بھائی، میں نے آغا صاحب کا نام ہٹا دیا ہے، مشیر کاظمی کا کوئی حوالہ دیں گے تو نام شامل کر لیا جائے گا۔ میں حوالے کا منتظر رہوں گا، شکریہ

    ReplyDelete