Wednesday, 15 January 2014

کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے

کہیں تو گرد اُڑے، یا کہیں غبار دِکھے
کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دِکھے
رَواں ہیں پھر بھی رُکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے
بڑے اُداس لگے، جب بھی آبشار دِکھے
کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دِکھے
خفا تھی شاخ سے شاید، کہ جب، ہوا گزری
زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دِکھے
کوئی طلسمی صفت تھی جو اُس ہجوم میں وہ
ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دِکھے

گلزار

No comments:

Post a Comment