Monday 13 January 2014

جو ذکرِ یار کبھی خود نوشت میں پایا

جو ذکرِ یار کبھی خود نوشت میں پایا
 دلِ حزِیں کو اسی کی گرفت میں پایا
 فراق، لمحۂ محشر میں دید کا لمحہ
 اس ایک لمحہ میں خود کو بہشت میں پایا
نزولِ شعر ہے یا جاں کنی کا عالم ہے
 بدن، اجل کے فرشتے کی شِست میں پایا
 اٹھائے سنگ و سناں، دیکھا ہوش مندی کو
 جنوں، برستے ہوئے سنگ و خِشت میں پایا
 غرورِ حُسن جو پہنچا فلک کنارے پر
 ہم ایسے مستوں کو اگلی نشست میں پایا
 سلامِ آلِ محمدؐ سکھایا فطرت نے
 درودِ آلِ محمدؐ سرِشت میں پایا
 تونگری کو جو دیکھا تو سر بسر دیکھا
 غناء کو پایا تو عارفؔ نے چِشت میں پایا

عارف خواجہ

No comments:

Post a Comment