Thursday 16 January 2014

ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے

ہِجر میں بھی یہ مِری سانس اگر باقی ہے
 اِس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے
چھوڑ یہ بات مِلے زخم کہاں سے تجھ کو
 زندگی اتنا بتا، کتنا سفر باقی ہے
تم سِتمگر ہو، نہ گھبراؤ مِری حالت پر
 زخم سہنے کا ابھی مجھ میں ہُنر باقی ہے
ہِجر کی آگ میں جلنے سے نہیں ڈرتی میں
 عشق مجھ میں ابھی بے خوف و خطر باقی ہے
میرے تنکے بھی ہوئے راکھ تو کیا حَرج بَھلا
 آتشِ عشق بتا کتنا یہ گھر باقی ہے
سانس لینا ہی تو شاہینؔ نہیں ہے جِیون
 ڈھونڈ کر لاؤ مِری رُوح، اگر باقی ہے

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment